یہ لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر آپ کی جان بچا رہے ہیں، سنیں کہ یہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
(last modified Tue, 19 May 2020 08:24:47 GMT )
May 19, 2020 12:54 Asia/Kabul
  • یہ لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر آپ کی جان بچا رہے ہیں، سنیں کہ یہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟

کورونا وائرس کے سامنے آتے ہی اس وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹروں اور طبی رضاکاروں کی جانب سے ایک ہی واضح پیغام دیا جاتا رہا ہے کہ گھروں میں رہیں، محفوظ رہیں۔

اور جب پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی حالات معمول کی جانب گامزن ہیں تو فرنٹ لائن جنگجو اب بھی اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر وبا سے لڑ رہے ہیں اور نہ صرف اپنی زندگیاں بلکہ انہوں نے اپنے پیاروں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دی ہیں۔

یہاں وہ ہیرو اپنے نامعلوم دشمن کے خلاف جدوجہد کو یاد کر رہے ہیں، وہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کر رہے ہیں اور کئی سوالوں کے جواب دے رہے ہیں، کیوں کہ کورونا حالیہ تاریخ کا مشکل ترین مرحلہ ہے۔

یہ ملک بھر میں کورونا کے خلاف لڑنے والے ہزاروں فرنٹ لائن ورکرز میں سے چند کی کہانیاں ہیں مگر ڈان ڈاٹ کام وقتا بوقتا ایسے ہیروز کی کہانیاں آپ تک پہنچاتا رہے گا۔

ڈاکٹر صائمہ کمال معتصم، کراچی

کووڈ-19 آئی سی یو کی سربراہ، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز
.........................................................................................................

ان کا کہناہے کہ جب تک آپ ایک کورونا کے مریض کو سانس لینے کے ہانپتے ہوئے نہیں دیکھتے اور اس کا خیال نہیں رکھا ہو، نوجوانوں کو اس سے ہلاک ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہو، گھنٹوں تک 3 تہوں والا حفاظتی لباس نہ پہنا ہو اور جب آپ کچھ کھا بھی نہیں سکتے، یا بیت الخلا تک نہیں جاسکتے ہوں، تب تک آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کورونا کیا ہے۔

ڈاکٹر صائمہ کمال کے مطابق ایک معالج ہونے کی حیثیت سے آپ خود کو اس وقت بےبس محسوس کرتے ہیں جب آپ ایک جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور پھر بھی اسے بچا نہ سکیں، تب احساس ہوتا ہے کہ یہی حقیقت ہے اور واقعی حقیقت ہے۔

ڈاکٹر صائمہ صبح جلدی اٹھنے کے بعد اپنے طویل دن کی تیاری کرتی ہیں، ہسپتال پہنچنے کے بعد ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں ملتا، وہ 3 سے 4 گھنٹوں کے لیے 3 تہوں والا حفاظتی لباس زیب تن کرتی ہیں، اس دوران وہ مریضوں کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات سے بھی نمٹتی ہیں۔

لیکن ان کا دن شام کو گھر واپس آنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا، ’گھر میں مجھے ہسپتال سے انتظامی امور اور مریضوں کے حوالے سے کالز آتی رہتی ہیں‘۔

’وسائل کی کمی سے لے کر اس بیماری اور حالات کی غیر یقینی تک مختلف امور کی وجہ سے گزشتہ دو مہینے ذہنی اور جسمانی طور پر خاصے مشکل رہے‘۔

صائمہ خود کو اور اپنے پیاروں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہسپتال آتے اور جاتے وقت ماسک اور دستانے پہنتی ہیں اور گھر پہنچنے کے بعد وہ سب سے پہلے خود کو اور اپنے کپڑوں کو صاف کرتی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ سب کرنا ضروری ہے کیوں کہ آپ نہیں جانتے کہ آپ دوسروں کو کورونا سے متاثر بھی کرسکتے ہیں‘۔

ټیګونه